بعد میرے سب سے مری گفتگو ہی ہوتی رہی
میں کہ دسترس میں نہ تھا جستجو ہی ہوتی رہی
میری تو نہیں پہ غزل میری پڑھ کے سو یاں کبھی
دیکھنا کسی کی وفا سرخ رو ہی ہوتی رہی
پھیلی ہے یہ رندگی وہ بھی تما شا یوں ہے اے دل
بات رسوا یی کی مری کو بہ کو ہی ہوتی رہی
ہم تو رشتے ٹھکرا کے واپس ہی لوٹ آۓ کہ بس
پھر بلا سے مجھ پہ واں پر گفتگو ہی ہوتی رہی
بس بکھر ہی جاۓ گا ہر چہرہ وقت یہ ترے سنگ
گم کتابوں میں تری بس رنگ بو ہی ہوتی رہی
چند ادھوری الفتیں تکلیف ہی ملی ہمیں پر
دل کو میرے دل لگی کی آرزو ہی ہوتی رہی
خیر ان کو پینے کی تو طرز ہے نہیں اے عبید
شب گئی یاں کاوشِ جام و سبو ہی ہوتی رہی

0
63