| زمستاں ہے یہاں تو ہو رہا انسان یخ بستہ |
| دھرا تھا صحن میں تو کیوں نہ ہو سامان یخ بستہ |
| ہمارے دل کی کیفیت اسی منظر میں پاؤ گے |
| حویلی جوں کوئی ویران سی سنسان، یخ بستہ |
| مسلماں کی زبوں حالی پہ لب بستہ ہیں، چپ سے ہیں |
| سسک کر رہ گئے دل میں فقط ایمان یخ بستہ |
| مجھے زنداں میں ڈالے بھی، نہیں چپ بیٹھنے والا |
| خودی دم توڑ جائے گا ترا فرمان یخ بستہ |
| مَری تھی ماں مگر معصوم بچہ دودھ پیتا تھا |
| نچوڑے جا رہا تھا بے خبر پستان یخ بستہ |
| اُنہیں پیڑوں کے سائے میں کسی جوڑے کو دیکھا تو |
| مجھے بھی یاد آئے ٹوٹ کر پیمان یخ بستہ |
| گھڑی بھر چین سے جینا نہیں آیا مقدر میں |
| کسی دن جان لے لیں گے مرے ارمان یخ بستہ |
| بدن پر ہو گیا لرزہ سا طاری جب یہ دیکھا تو |
| پڑا تھا دشت میں کوئی جواں بے جان یخ بستہ |
| مجھے یہ خوش گمانی، بے غرض حسرتؔ کیے ہوں گے |
| پگھلتے جا رہے ہیں اب مگر احسان یخ بستہ |
| رشید حسرت ٢٢، نومبر ۲۰۲۵ |
| Email: Rasheedhasrat199@gmail.com |
معلومات