ہوتی ہے لوگوں کو لغو سی بات پہ حیرت، جانے دو
حضرت انساں کی رہتی ہے بس یہی فطرت جانے دو
ہے پر لطف سماں بھی اور ہیں پر آشوب فضائیں بھی
ہر سو ہنگام گل بھی، اور ملال بکثرت جانے دو
کیا او ستم راں بھول گئے تم، جو اسباب زوال رہیں
صد افسوس نہ روک سکے بھی اپنی بغاوت جانے دو
سدھرے ہیں نہ سدھرنے کے آثار نظر آتے ہیں کچھ
باتیں فضول ہیں، چھوٹ سکے جو نہ ہم سے شرارت جانے دو
بن سکے پائیدار جو شیرازہ کبھی ٹوٹ چکا تھا پر
کیا بیدار ہو پائے گی جو ہے بکھری ملت جانے دو
ہے درکار کڑی محنت تقدیر سنورنے میں اپنی
تابندہ ہو سکے گی یارو سوئی قسمت جانے دو
حق کے ماننے میں ہی ناصؔر بہتری مضمر رہتی ہے
کڑوی حقیقت گر بری لگ جائے تو حضرت جانے دو

0
19