| اس بار ہمسفر بھی کوئی راستہ نہیں |
| اک آسماں ہے وہ بھی مرے کام کا نہیں |
| تا حدِّ آنکھ پھیلے سمندر کی بے رخی |
| کشتی نہیں ہے موج نہیں ناخدا نہیں |
| اتنے پڑاو ہم نے اچھالے کہ تھک گئے |
| رہنے دو کام جس کا کوئی فائدہ نہیں |
| لفظوں کے بانکپن میں معانی الجھ گئے |
| شاید ہمارے منہ میں رہا ذائقہ نہیں |
| کس سمت آکے خیرہ نظر کرتی روشنی |
| تھا درکِ شب گزیدہ کا روزن کھلا نہیں |
| موسم جو برف زاد خموشی کو توڑدے |
| شیدّا ترے شجر کو میسّر ہوا نہیں |
معلومات