ہم ہیں کہ بنے جاتے ہیں اس آگ کے ایندھن
جس آگ میں تم نے کبھی جل کر نہیں دیکھا
رستہ ہے یہ کیا اور ہے کس سمت میں منزل
تھی بے خودی اتنی کہ سنبھل کر نہیں دیکھا
تم ہو کہ ہر اک گام بدل لیتے ہو منزل
ہم نے تو کبھی راہ بدل کر نہیں دیکھا
اس شہرِ پر آشوب میں ہو جاتا ہے کیا کیا
تم نے تو کبھی گھر سے نکل کر نہیں دیکھا

0
14