رگِ خوابیدہ کو بھی پھر سے جگایا جائے
دلِ ویراں میں وہی پھول کھلایا جائے
ایسے پتھر کے لیے دل کو کریں ہم پانی
ایسے بدکیش ستمگر سے نبھایا جائے
گر تو فرعون ہے تو مجھ کو بھی موسیٰ ہی سمجھ
تو خدا ہے نہیں پھر سر کیوں جھکایا جائے
گر یہی روشنی ہے تو نہیں درکار مجھے
نفرتوں کا یہ چراغ آج بجھایا جائے
ہم تو وہ ہیں نہیں دنیا سے جو کھا جائیں فریب
جوں مداری ساری دنیا کو نچایا جائے
یادِ ایام میں آنسو تو بہائے کیا کیا
یادِ معشوق میں بھی اشک بہایا جائے
جانے کس کس کو یہ نالوں سے یاں گمراہ کرے
خوش نوا ثانی کو محفل سے اٹھایا جائے

0
16