اُس کو سنتا ہے اُس کو تکتا ہے
مجھ سے قاصد ہی میرا اچھا ہے
ہم تو رہتے ہیں اُن کے زیرِ ستم
یہ کرم کیا ہے کس پہ ہوتا ہے؟
ہیں اُدھر کرنے کو جفائیں ہزار
اور اِدھر میری جان تنہا ہے
جھانک کر اُن کو دیکھ لیتے ہیں، سو
بے رفو سینہ ہم کو اچھا ہے
نہ وہ ساقی نہ وہ شراب ہے اب
ہائے کیسا یہ دور آیا ہے
یار مل جائے ہم خیال اگر
عشق کا لطف پھر ہی ملتا ہے
وہ ہوے ہیں غمِ جہاں کی نذر
غمِ محبوب جن سے چُھوٹا ہے
دیکھیے کتنے جاں سے جاتے ہیں
دیکھیے اُن کا رخ بے پردا ہے
تاب کس کو ہو, تاب لائے کون؟
دیکھ, تجھ کو ہر ایک مرتا ہے
سہنے کو یار کے ستم، شاہد
تُو بتا اور ضبط کتنا ہے

0
99