| وُہ مِرا دوست مِرے حال سے آگاہ تو ہو |
| نا سہی سچ میں مگر خواب میں ہمراہ تو ہو |
| کُچھ اثر اُن پہ مِری آہ و فُغاں کا یارو |
| ہو نہ ہو، پِھر بھی مِرے لب پہ کوئی آہ تو ہو |
| کب کہا میں نے تعلُّق وہ پُرانا ہو بحال |
| بس دِکھاوے کو فقط تُم سے کوئی راہ تو ہو |
| جو محبّت میں وفاؤں کو تڑپتا چھوڑے |
| پِِھر ترستا ہی رہے، پہلے اُسے چاہ تو ہو |
| میں نے کب اُس کی محبّت کا کِیا ہے اِنکار؟ |
| اُس طرف جاتا کوئی راستہ ہو، راہ تو ہو |
| تُرش لہجے پہ کبھی غور کِیا ہے تُم نے |
| گرم جوشی نہ سہی دل میں مگر جاہ تو ہو |
| کیا ہُؤا چاند اگر اپنے تصرُّف میں نہِِیں |
| شک نہِیں اِس میں مِرے واسطے تُم ماہ تو ہو |
| آج کُچھ ایسا ادا کرنا پڑے گا کِردار |
| ہو نہ ہو کُچھ بھی مگر دوست خُود آگاہ تو ہو |
| یہ وُہی خانہ بدوشوں کا قِبیلہ ہے رشِیدؔ |
| ڈیرہ ڈالے گا، وہاں کوئی چراگاہ تو ہو |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات