| مثلِ رنگِ سحر روئے تاباں حسیں حسن جس کا نکھرتا رہا ہر گھڑی |
| گفتگو جیسے موتی پرو دے کوئی لہجہ ایسا کہ چشمہ بہا شہد سا |
| اک ادا تھی نرالی الگ ہی رہی بات کرنے کی جیسے جھڑی پھول کی |
| جیسے اندر اترتی ہوئی سی نگہ اور ہونٹوں پہ لپکا وہ مسکان کا |
| گہرے رازوں سے پردہ ہٹانا مگر اتنی آسان کب تھی طریقت کی راہ |
| لطف ان کا نمایاں ہوا اس قدر سادہ لفظوں میں ہی سب کو سمجھا دیا |
| پیارے آقا سے پائی تھی پوشاک ایسی جو علمِ لدُنّی سے رنگین تھی |
| پر طبیعت شگفتہ رہی عمر بھر اتنا رتبہ بلندی بھری شان کا |
| اس صدی کے وہ صوفی ہیں خواجہ لقب ہیں ممثل وہی اپنے مرشد کے بس |
| ان کا ثانی تو ممکن نہیں ہے مگر ان کے نقشِ قدم جا بجا جا بجا |
معلومات