پِھر اُس کے بعد تو تنہائِیوں کے بِیچ میں ہیں
کہ غم کی ٹُوٹتی انگڑائِیوں کے بِیچ میں ہیں
غرور ایسا بھی کیا تُجھ کو شادمانی کا
کِسی کی چِیخیں جو شہنائِیوں کے بِیچ میں ہیں
ہمیں تو خوف سا لاحق ھے ٹُوٹ جانے کا
تعلُّقات جو گہرائِیوں کے بِیچ میں ہیں
ہمارے بیچ میں ہے مسئلہ زمینوں کا
فساد انہی پہ مِرے بھائِیوں کے بِیچ میں ہیں
ہمارا درد بھی اِک، سوچنے کا زاوِیہ ایک
عجِیب ناتے یہ صحرائِیوں کے بِیچ میں ہیں
کِسی کو اوجِ ثُریّا پہ لے چلے تھے مگر
زمانہ دیکھ ہمیں کھائیوں کے بِیچ میں ہیں
یہ دِل کا شِیشہ تو ٹُکڑوں میں بٹ چُکا کب کا
کہ سادہ دل ابھی رعنائِیوں کے بِیچ میں ہیں
وفا ھے کیا؟ یہاں مفہُوم کِس کو سمجھائیں
یہی تو دُکھ ھے کہ ہرجائِیوں کے بِیچ میں ہیں
بجا یہ بات کہ لازِم ھے ضبط حسرتؔ جی
اُداس آنکھیں یہ پُروائِیوں کے بِیچ میں ہیں
رشید حسرتؔ

0
85