| رہا وہ نَیند میں، شامِل جو رتجگوں میں ہے |
| خُمار کیسا یہ اب کے خزاں رُتوں میں ہے |
| میں جان بُوجھ کے انجان بن کے رہتا ہُوں |
| جو وار پُشت سے کرتا ہے، دوستوں میں ہے |
| فراز لوگ تُمہیں بُھول ہی نہِیں پائے |
| کہ اِحترام ابھی آپ کا دِلوں میں ہے |
| اگرچہ خُود بھی وہ دُشواریوں کی زد پر تھا |
| میں جانتا ہُوں کہ شامِل مِرے دُکھوں میں ہے |
| یہ قُربتیں تو ہمیں دُور پھینک دیتی ہیں |
| بتاؤں تُم کو، مزہ کیسا فاصلوں میں ہے |
| مَیں شام گاؤں کی اب تک نہ بُھول پایا ہُوں |
| دِھواں اُٹھا ہے کہِیں ابر ملگجوں میں ہے |
| وہ بات بات پہ آنکھیں دِکھا رہا تھا رشِیدؔ |
| پتہ چلا کہ ابھی تیل کُچھ تِلوں میں ہے |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات