| غزل |
| محبت کے پودے لگا کر رہیں گے |
| شجر نفرتوں کے جلا کر رہیں گے |
| ہر اک موڑ پر ہم کھلائیں گے گلشن |
| وطن کی دلہن کو سجا کر رہیں گے |
| ترے ساتھ وعدہ وفا کا کیا تھا |
| وہ مر کر بھی وعدہ نبھا کر رہیں گے |
| جو روٹھے ہیں ہم سے انھیں ہم قسم سے |
| بڑی منّتوں سے منا کر رہیں گے |
| لکیریں جو کندہ ہیں بد قسمتی کی |
| بہ ہر حال ان کو مٹا کر رہیں گے |
| جو پودے ہیں ان کو جواں پیڑ کرکے |
| ثمر بار ان کو بنا کر رہیں گے |
| تمہارے لئے جو غزل ہم نے لکھّی |
| اسے ہم جہاں کو سنا کر رہیں گے |
| GMKHAN |
معلومات