ہے خوش فہمی کسی دل میں بسا ہوں
کہ اپنے دام میں خود پھنس گیا ہوں
ہے گر دنیا بُری میں بھی بُرا ہوں
یہ میں نے کب کہا میں پارسا ہوں
مُقابل ہے جو آئینے میں اِک شخص
گُماں ہے اِس سے پہلے بھی مِلا ہوں
بُری عادت ہے بے خوابی بھی یارو
میں سپنوں میں بھی اکثر جاگتا ہوں
جُنوں جو ہے مرا خُود ساختہ ہے
وہ سمجھے ہیں میں پاگل ہو گیا ہوں
بَگولوں کی نظر میں بُجھ چُکا ہوں
دِیا اَندر ہی اَندر جل رہا ہوں
جو کھولوں لب تو دہشت گرد ہوں میں
رَہوں گر چُپ تو بولے بِک گیا ہوں
سُکوتِ مَرگ جو توڑا ہے میں نے
تو کہتے ہو بہت میں بولتا ہوں
بظاہر جو میں تُم پر سِیخ پَا ہوں
یہ اپنے آپ ہی سے میں خفا ہوں
بنائے جِس قدر ہتھیار میں نے
تباہی کی میں اپنی خود وجہ ہوں
مرے ناقد بھی اب کہنے لگے ہیں
میں اپنے آپ میں سب سے جُدا ہوں
سمانا تم بھی پہلے سے نہیں ہو
صدائے گم گزشتہ جانتا ہوں
نمک پاشی مرے زخموں پہ کیونکر
ہوں انساں میں یا کوئی سنترا ہوں
نہ ہی گھر کا رہا نا گھاٹ کا میں
ترے چکّر میں جب سے مبتلا ہوں
میں خاکی خاک سے نسبت ہے مجھ کو
فرشتہ ہوں نہ کوئی اپسرا ہوں
تجھے فرصت ملے تو دیکھ لینا
میں کب سے لین میں پیچھے کھڑا ہوں

0
15