| عشق کی رسم کا خیال رکھو |
| ہم سے یہ رابطے بحال رکھو |
| ۔ |
| دل میں رکھے ہیں میرے واسطے جو |
| وہ ملال اپنے سب نکال رکھو |
| ۔ |
| ڈھیل دو تم نہ ہی تناؤ دو |
| ہر تعلق میں اعتدال رکھو |
| ۔ |
| ق |
| "یہ کہا تھا کسی نے ہم سے یار |
| میری یہ بات تم سنبھال رکھو |
| چھوڑ کے خوش ہو زندگی میں جو |
| اس کا دل میں نہ پھر ملال رکھو" |
| ۔ |
| سہل میں تو کوئی کمال نہیں |
| سو نشانے پہ تم محال رکھو |
| ۔ |
| گر اترنا ہے عشق کے رَن میں |
| حوصلے اپنے پھر کمال رکھو |
| ۔ |
| ہجر سہنے کی اب نہیں ہے سکت |
| رشتۂ عشق کو بحال رکھو |
| ۔ |
| یہ تکبر ہے ناپسندِ خدا |
| عاجزی والی چال ڈھال رکھو |
معلومات