یہ عطر پون جو لاتی ہے، لگے اُن کے شہر سے آتی ہے
کیا خوب ہے راہ، چلو چلتے ہیں، یہ شہرِ مدینہ جاتی ہے
جو گھڑیاں ہجر میں مشکل ہیں، یہ کیسے فراق میں اب گزریں
دل خون کے آنسو روتا ہے، جب یاد سجن کی آتی ہے
جب گریاں میں غم سے ہوتا ہوں، آنکھ سے بارش ہوتی ہے
میں جاگوں طیبہ کے غم میں، اس فکر میں آنکھ ہے وا رہتی
جب اُن کا کرم ہو جاتا ہے، ہر دور بلا ہو جاتی ہے
ہے شور فراق میں دل کرتا، اور سینے میں سانس جو رُکتی ہے
جاں بھول کے ورد وضیفے سب، پھر نغمے نبی کے گاتی ہے
جب شکر خدا کا دل نے کیا، فردا کی فکر کو کیسے کروں
احسان ہیں مومن پر ہادی، جو ذاتِ خدا فرماتی ہے
وہ وقت ضرور اب آئے گا، یہ عاصی طیبہ جائے گا
انہیں دل کا حال سنائے گا، اور نغمے، جان جو گاتی ہے
ہر یاد میں میرے آقا ہیں، ہر دان کے داتا آقا ہیں
ہر آن سلگتا رہتا ہوں، کیا شور یہ جان مچاتی ہے
کچھ دیکھ کے میری حالت کو، فریاد ہیں کرتے وہ دل سے
کچھ مجھ کو پاگل کہتے ہیں، کچھ کہتے ہیں جذباتی ہے
جو ہادی سرور پیارے ہیں، وہ ساجن رحمت والے ہیں
جب یاد سجن کی آتی ہے، ہر حال پہ، یہ چھا جاتی ہے
دل چاہے انہیں مہمان کروں، قُربان یہ تن من جان کروں
بنوں کشتہ اُن کی حُب کا میں، ملے دائم پھر جو حیاتی ہے
تو شہرِ نبی میں جائے گا، محمود وہ دن اب آئے گا
سرکار سخا میں اول ہیں، کیوں جان حزیں بل کھاتی ہے

15