یوں نئے سال کی ابتداء اب کریں
عمر بھر نا جدا ہو دعا اب کریں
نہ کوئی قسم نہ نیا عہدِ۔ جاں
جو وعدے کئے تھے وفا اب کریں
وہ کہ خود سے بڑھ کے ہے چاہا جسے
ہے یہ استدعا کے نبھا اب۔ کریں
کیوں خوابوں کو ترسیں بھلا عمر بھر ؟
تو کیوں نیند خود سے جدا اب کریں؟
کچھ تو عنایت۔ ہو ابرِ کرم
یہ صحرا بھی تو التجا اب کریں
اک دوسرے کی اگر ہو۔ سکے
تو صرفِ نظر ہم خطا اب کریں
مقدر ہے کیا؟ نور یہ دوریاں !!
ہو ممکن تو پُر یہ خلا اب کریں

0
34