| حسین کہیے اسے یا حسین تر کہیے |
| کہیں خفا ہی نہ ہو جائے کچھ اگر کہیے |
| قیام گاہ، تصور کوئی درست نہیں |
| قیام گاہ کو دو چار روز گھر کہیے |
| شبِ وصال کہیں وہ مری جھجک کو شرم |
| جھجک جھجک رہے یا شرم، آپ ڈر کہیے |
| اسے ستمگر و ظالم، جفا شعار، نہیں |
| سکون و راحتِ جان و دل و جگر کہیے |
| اک اس کے باغ میں آنے سے کیا نہیں آیا |
| بہار، رونقِ برگ و گل و ثمر، کہیے |
| حضور شیخ جی آئے ہیں بادہ خانے میں |
| بھگوڑا بھاگ کر آیا ہے، خر کو خر کہیے |
| ہوا ہے گوشہ گزین آسمان میں، تنہاؔ! |
| خدا نہ کہیے تو کیا کہیے، مختصر کہیے |
معلومات