| آپ کو ہم بُھول جائیں کیا کریں |
| نام تک لب پر نہ لائیں کیا کریں |
| سب مُرادیں دِل کی پاتے ہیں یہاں |
| اور ہم دُکھ درد پائیں، کیا کریں |
| ہم نے وعدہ بُھولنے کا کر لیا |
| اِس میں آئیں بائیں شائیں کیا کریں |
| شہر یہ برباد ہو کر رہ گیا |
| اور اب ہے سائیں سائیں، کیا کریں |
| ہر طرف محرُومِیوں کا راج ہے |
| اب نگر یہ چھوڑ جائیں کیا کریں |
| ہم تہی دامان ہو کر رہ گئے |
| خاک گلیوں میں اُڑائیں کیا کریں |
| حُکم بابا نے دیا، مجبُور ہیں |
| ایک دو پودے لگائیں، کیا کریں |
| آپ نے پِھر پیار سے دیکھا ہمیں |
| پاس آئیں، دُور جائیں، کیا کریں |
| شہر کی رنگِینِیوں میں زہر ہے |
| لوٹ کر پِھر گاؤں جائیں، کیا کریں |
| ہم سے کوئی بھید چُھپ سکتا نہِیں |
| قُفل ہونٹوں پر لگائیں کیا کریں |
| کِس نے دِل پر نقش کیا چھوڑے رشِیدؔ |
| یاد رکھ لیں، بُھول جائیں، کیا کریں |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات