نہ جانے عرصہ دراز سے یار تم بہت ہی خفا رہے ہو |
بتاؤ کیوں ایسے سرگُزِشت و فسانہ اپنا سنا رہے ہو |
زباں پہ ہیں بول میٹھے، کرتوت بر مخالف جتا رہے ہو |
ستمگروں سے زیادہ، ہمدرد رہ کے بھی تم ستا رہے ہو |
مثال قائم ہو سکتی ہے سورما کے جیسی پہ شرط ہے کچھ |
کٹھن گھڑی رہتے وعدہ احسن طریقے سے گر نبھا رہے ہو |
بجائے ان کے بڑھاپے کا آسرا ہو، دھتکارتے ہی جاؤ |
ضعیف ماں باپ کی بڑی بددعائیں بے کار کھا رہے ہو |
بے حس جو ناصؔر بنے تو، رنج و الم، اداسی کے ابر چھائے |
بھلا بتاؤ تو خود کو ایسی یہ کیوں مگر دے سزا رہے ہو |
معلومات