| جلوے کیا دکھائے مجھے نایاب گہر نے |
| کی انجمن آرائی تھی گویا کہ سحر نے |
| تابانی جو تاروں کی ہے چھائی مری شب میں |
| دیکھا بھی کبھی ایسا کہیں شمس و قمر نے |
| ہر موڑ پہ رہزن ہے مگر چلتے ہی جانا |
| یہ ذوق کہ بخشا ہے مجھے عزمِ سفر نے |
| چھالے میرے پیروں میں ابھی تک ہیں مگر کہ |
| چلنا تو سکھایا ہے اسی راہ گزر نے |
| . |
| تسکینِ دلِ و جاں تو بہت دور ہے ساقی ! |
| دل سوز کیا پھر سے مجھے دردِ جگر نے |
| بیزار سے پروانوں کو کیا شمع سے الفت |
| جب عشق میں پیدا نہ کیا جوش ، اثر نے |
| ہر بزم میں رسوائی مقدر تری ہوگی |
| گر بزم کو سنبھالا کسی تنگ نظر نے |
| بس پھونک ہی دیتا وہ نشیمن کا نشیمن |
| ہرچند کہ کوشش کی تھی اک صاحبِ شر نے |
| . |
| بت توڑ دیے سارے جہالت کے تراشے |
| بت خانۂ شاہی کے کسی سینہ سپر نے |
| ادراک و بصیرت سے ہے معمور وہ ہستی |
| مجھ کو یہ بتایا ہے فقط اس کے ہنر نے |
| کیا کیا مجھے اندازِ ادیبانہ سکھایے |
| اس صاحبِ ادراک کی بس ایک نظر نے |
| کیا چیز ہے تاریخ و روایات نگاری |
| اس راز سے واقف کیا اک اہلِ نظر نے |
معلومات