| زندانِ شام کے در و دیوار روتے ہیں |
| آواز سسکیوں کی سنی جان کھوتے ہیں |
| دل پاش پاش اہلِ حرم کے بھی ہوتے ہیں |
| اُمِ رباب کہتی ہیں رو کے حزینہ سے |
| ملنے ضرور آتے ہیں بابا سکینہ سے |
| زانوں پہ سر کو رکھ کہ چھپایا ہے چہرے کو |
| دیکھا بھی کیسے جائے گا بابا سے چہرے کو |
| ایذا جگہ جگہ ہے دی ظالم نے چہرے کو |
| رنگت بدل گئی ہے طمانچوں کی مار سے |
| دُروں کے ساتھ مارا گیا خار دار سے |
| کانوں سے خون بہتا ہے رورو کے ہے کہا |
| کاسوں میں پانی کی جگہ خوں ہے بھرا ہوا |
| ضربیں جو ہم نے کھائی ہیں راہوں میں جابجا |
| ننھے سے دل پہ پیاس کی ایذا اٹھائی ہے |
| کوثر کے وارثوں پہ قیامت یہ ڈھائی ہے |
| آیا ہے سرحسین کا زنداں میں جس گھڑی |
| بچی نے دیکھا باپ کو پھر ہو گئی کھڑی |
| آنکھوں سے آنسووں کی بھی بہتی رہی لڑی |
| گالوں پہ ہاتھ رکھ کے پکارا ہے باپ کو |
| سینہ بغیر قید میں لایا ہے باپ کو |
| زنداں میں بچی کو ہے ملا باپ کا جو سر |
| آلود گَرد سے ہے لہو سے بھی ہے جو تر |
| اب صاف چہرہ میں کروں اے شاہِ بحروبر |
| چہرے کو صاف کرنے کو ننھا سا ہاتھ ہے |
| پانی نہیں ہے پاس نہ چادر کا ساتھ ہے |
| گریہ تو ضبط کر لیا دل سوز ہے حزیں |
| رونے پہ ظلم ڈھاتا تھا ہر ایک جو لعیں |
| دل کھول کر میں آج تلک روئی بھی نہیں |
| ظلم و جفا سے دیکھو سفیدی جو آئی ہے |
| رنج و الم سے مجھ پہ ضعیفی بھی چھائی ہے |
| سجاد ناتواں کے لبوں پر تھا یہ کلام |
| صدمے بہت اٹھائے ہیں بچی نے اے امام |
| سوئی نہیں سکون سے ہائے یہ تشنہ کام |
| رونے کے ساتھ سونے پہ مارا گیا ہے جو |
| پُر خار راستوں سے گزارا گیا ہے جو |
| چہرے پہ ہاتھ رکھ کہ پکارا بہن کو ہے |
| لپٹی ہوئی ہے شہ سے اٹھایا بہن کو ہے |
| حرکت بغیر جسم کو پایا بہن کو ہے |
| سر رکھ کے سرِ شاہ پہ بچی گزر گئی |
| اصغر کے بعد ہائے سکینہ بھی مر گئی |
| آئی ہے قید خانے میں غَسالہ جس گھڑی |
| بچی کو چھو کے ہوگئی پھر اک طرف کھڑی |
| کُرتا بدن پہ چپکا ہے یہ کہہ کہ رو پڑی |
| کرتا نکالنا کسی ایذا سے کم نہیں |
| ایسا تو کائنات میں دیکھا ستم نہیں |
| صائب کلیجہ پھٹتا ہے سن کر یہ داستاں |
| میت اٹھائے ہاتھوں پہ لاتا ہے ناتواں |
| گریہ کناں بھی ہوتی ہے مظلوم ایک ماں |
| ننھی سی قبر کھود کہ رکھ کے حزینہ کو |
| زنداں کے ساتھ چھوڑ دیا ہے سکینہ کو۔ |
معلومات