| وہ مُجھ سے جل کے یہ بولے کہ ہو ترقّی میں |
| ہضم یہ بات نہ ہو تُم رہو ترقّی میں |
| اُنہیں زوال کا کھٹکا کبھی نہیں ہوتا |
| خُدا کی یاد جگاتے ہیں جو ترقّی میں |
| یقین ہے کہ عقِیدت عُرُوج پائے گی |
| نِگاہیں پائیں گی جب آپ کو ترقّی میں |
| وگرنہ اُن کی حقِیقت کبھی نہِیں کُھلتی |
| ہُؤا ہے عُقدہ کوئی حل چلو ترقّی میں |
| عجِیب بات، ہمیں تُم نے کیسے یاد رکھا |
| بُھلایا جائے جہاں باپ کو ترقّی میں |
| جلن ہے تُم کو اگر ہم سے تو عِلاج کرو |
| دِيا ہے کیا تُمہیں نُقصاں کہو ترقّی میں |
| کما لِیا ہے بہُت کُچھ حیات میں ہم نے |
| جو تُم نہِیں تو رہا کیا ہے سو ترقّی میں |
| کہِیں بھلا تھا کہ ہم جھونپڑوں میں رہ لیتے |
| زوال آیا ہمیں دیکھ لو ترقّی میں |
| رشِیدؔ لوگوں کی باتوں سے جہل جھانکتا ہے |
| وگرنہ دیکھنے کو ہیں یہ گو ترقّی میں |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات