مدعہ دل کا کہنے کو جیسے ہی اس نے اپنے لب کھولے۔ |
گرویدہ ہو گئے ہیں لوگ وہ رس میٹھے انداز سے گھولے۔ |
تیرے لبوں کی نزاکت پھولوں کی نازک یہ قبائیں کترے۔ |
کلی بھی کھل کے کہے سازش ساری ہوا کی ہے جو ڈولے۔ |
اس نے سریلی میٹھی باتوں سے من میرا موہ لیا ہے۔ |
ہم بن پیئے اتنا جھومے ہیں جیسے اٹھے ہیں آئے جُھولے۔ |
جی چاہے اٹھنے کو حضور تو کیا کہیے بندہ پرور کو۔ |
ساکن ہو گئے جیسے کوئی سحر ہو کیا سر چڑھ کر بولے۔ |
سخت مزاج دیار میں رہنے دیا نہ کسی کا کِیا ایسا کَیا۔ |
ہر سو ہنسی اب بڑھنے لگی ہے کیوں کر کوئی ایسے رولے۔ |
پیار جہاں میں بانٹا خوشی سے ہزاروں دل مسرور ہوئے ہیں |
ہیرے موتیوں پر بھاری ہیں کیسے تیرے سنگ وہ تولے۔ |
مشکل وقت نے کروٹ لی اک شمع جلی ہر رنگ ڈھلی ہے۔ |
ڈھل یہ انائیں گئیں یوں خطائیں مٹیں کیسے کوئی اب ڈولے۔ |
ان یادوں کی جھڑی چھٹنے پر برآمد ہوئیں راحتیں کتنی۔ |
آ کر مدتوں بعد ملے کچھ بولے کئی دکھ سکھ خود پھولے۔ |
معلومات