| حقِیر جانتا ہے، اِفتخار مانگتا ہے |
| وہ زہر بانٹتا ہے اور پیار مانگتا ہے |
| ذلِیل کر کے رکھا اُس کو، اُس کی بِیوی نے |
| (ابھی دُعا میں) مِعادی بُخار مانگتا ہے |
| ابھی تو ہاتھ میں اُس کے ہے خاندان کی لاج |
| گریباں سب کے جو اب تار تار مانگتا ہے |
| بِچھا کے رکھتا ہے وہ سب کی راہ میں کانٹے |
| صِلے میں لوگوں سے پُھولوں کے ہار مانگتا ہے |
| میں اپنے وعدے پہ قرضہ چُکا نہِیں پایا |
| مُعافی دِل سے ابھی شرمسار مانگتا ہے |
| حواس جب سے مِلے تب سے اِضطراب میں ہُوں |
| مِرے خُدا، مِرا دِل بھی قرار مانگتا ہے |
| امیرِ شہر نے چِھینا ہے مُنہ کا لُقمہ بھی |
| پِھر اُس پہ قہر ابھی اعتبار مانگتا ہے |
| ابھی یہ اہلِ سِیاست کے بس کا روگ نہِیں |
| ابھی یہ مُلک نیا شہسوار مانگتا ہے |
| بجا کے طائرِ چشمِ حسین ہے مشّاق |
| دل و نظر کا مگر یہ شکار چاہتا ہے |
| میں دیکھتا ہوں کہ زلفیں تری سنوارتا ہوں |
| ہے خواب اچّھا مگر انتظار مانگتا ہے |
| رشِیدؔ اُن پہ مِرا نغمہ کارگر ہی نہِیں |
| یہ گیت وہ ہے کہ جو دِل کے تار مانگتا ہے |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات