| یہ میری بات غلط ڈھنگ سے سناتے ہیں |
| کچھ اور میں نے کہا تھا، یہ کچھ بتاتے ہیں |
| تمام عمر کبھی ہم نے یہ نہیں سوچا |
| ہم آئے کس لیے اور کیوں یہاں سے جاتے ہیں؟ |
| سفر یہ چاہ کا ہے ساز باز راہ کا ہے |
| خراب و خستہ چلو اپنے گھر کو جاتے ہیں |
| چراغاں اُن کے لیے ،ہے ہماری بربادی |
| بنامِ روشنی یہ بستیاں جلاتے ہیں |
| تمہاری آنکھوں نے دل کو اسیر رکھا ہے |
| تمہاری آنکھوں میں ہم ڈوبتے ہی جاتے ہیں |
| ہمیں سناتے ہیں وہ داستاں نئی سے نئی |
| پھر اُس کے بدلے میں ہم شاعری سناتے ہیں |
| تمہیں بتائیں میاں! ہوتا کیا ہے بازی میں |
| وہ چال چلتا ہے تو سب ہی ہار جاتے ہیں |
| ہم اُس سے ہاتھ ملاتے ہیں حال پوچھتے ہیں |
| ہم اُس کو جانتے ہیں یہ اُسے جِتاتے ہیں |
| جونؔ کاظمی |
معلومات