یہ میری بات غلط ڈھنگ سے سناتے ہیں
کچھ اور میں نے کہا تھا، یہ کچھ بتاتے ہیں
تمام عمر کبھی ہم نے یہ نہیں سوچا
ہم آئے کس لیے اور کیوں یہاں سے جاتے ہیں؟
سفر یہ چاہ کا ہے ساز باز راہ کا ہے
خراب و خستہ چلو اپنے گھر کو جاتے ہیں
چراغاں اُن کے لیے ،ہے ہماری بربادی
بنامِ روشنی یہ بستیاں جلاتے ہیں
تمہاری آنکھوں نے دل کو اسیر رکھا ہے
تمہاری آنکھوں میں ہم ڈوبتے ہی جاتے ہیں
ہمیں سناتے ہیں وہ داستاں نئی سے نئی
پھر اُس کے بدلے میں ہم شاعری سناتے ہیں
تمہیں بتائیں میاں! ہوتا کیا ہے بازی میں
وہ چال چلتا ہے تو سب ہی ہار جاتے ہیں
ہم اُس سے ہاتھ ملاتے ہیں حال پوچھتے ہیں
ہم اُس کو جانتے ہیں یہ اُسے جِتاتے ہیں
جونؔ کاظمی

0
41