کیسے کٹا ہے اب کے یہ سال پوچھتا ہے
وہ جانتا ہے پھر بھی کیوں حال پوچھتا ہے
سُر پوچھتا ہے سارے سُر تال پوچھتا ہے
وہ راگ سارے کر کے پامال پوچھتا ہے
توہم پرست ہے وہ ڈرتا ہے چشمِ بد سے
ٹوٹے جو آئینہ بھی تو فال پوچھتا ہے
کتنا عجیب ہے وہ جو کاٹ کے شجر کو
ٹوٹی ہے کیوں شجر سے اک ڈال پوچھتا ہے
دکھتا نہیں ہے اس کو ٹوٹا ہوا ہے جو دل
بھیگے ہوئے ہیں کیوں میرے گال پوچھتا ہے

0
18