| کھینچی زبان اُس کی بہُت بولتا تھا وہ |
| شاہوں کے راز جو تھے سبھی کھولتا تھا وہ |
| اُس کو تھی راست گوئی کی عادت پڑی ہُوئی |
| سب کی بیان بازیوں کو تولتا تھا وہ |
| ہاری کِسان اُس کو بہُت ہی عزِیز تھے |
| مارا گیا کہ کانوں میں رس گھولتا تھا وہ |
| باز آؤ سچ سے دوست اُسے بولتے رہے |
| کِتنا نڈر تھا خطرے سبھی مولتا تھا وہ |
| خُود کو سنبھال، کہتا رہا، غاصِبوں سے چِھین |
| دینے شعُور اپنی زباں کھولتا تھا وہ |
| لوگو شراب اُس کا بھلا کیا بگاڑتی |
| جمہور کا تھا کیف جبھی ڈولتا تھا وہ |
| اِنسان تھا وہ اُس پہ بھی ہوتا اثر ضرُور |
| ہنستا رشِیدؔ، آنسُو کبھی رولتا تھا وہ |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات