| جھلسے ہیں کبھی ہاتھ کبھی پاؤں جلے ہیں |
| آغوش میں ہم آتشِ سوزاں کی پلے ہیں |
| کیا نرم طبیعت جگر و دل، تنِ نازک |
| پوچھو نہ کہ سب یار کی تلوار تلے ہیں |
| کہتا ہے تو کہنے دے، نہ کر شیخ کی پرواہ |
| میکش ترے آگے کبھی پینے سے ٹلے ہیں |
| احساس نہ تھا وقت گزرنے کا شبِ وصل |
| ہجراں میں اک اک پل کے لیے ہاتھ مَلے ہیں |
| یہ داد، پزیرائی یہیں ڈھیر ہے، تنہاؔ |
| دامن تری محفل ہی میں ہم جھاڑ چلے ہیں |
معلومات