| اسے نقش کر رہِ لیلاۓ سفرِ جنوں کے نصاب میں |
| یہ جو داستاں ہے سرِ ورق مری زندگی کی کتاب میں |
| کوئی مجنوۓ رہِ گم شدہ ، کوئی کہہ گیا مجھے سرپھرا |
| مرے عزم کا یہ کمال تھا میں نے دریا ڈھونڈا سراب میں |
| مرا دل تو تھا صنم آشنا مری بے خودی کی تھی انتہا |
| کبھی خاروخس سے چُنا ، چمن ، کبھی کانٹے ڈھونڈے گلاب میں |
| کبھی دل جلایا تھا عشق میں کبھی شعلہ پھونکا تھا آب میں |
| میں نے کیسے کیسے یوں گل کھلائے ہیں اپنے دورِ شباب میں |
| دلِ بے وفا ، اہلِ جفا ، بیداد گر ، ہرجائیا ! |
| تجھے کیا خبر مرےعشق کی جو ہے جلوہ پیرا حجاب میں |
| میں ہوں مضطرب، بیتاب جاں ، مرے دل کو شاہؔی سکوں نہیں |
| کوئی لے چلے مجھے کھینچ کرکسی اہلِ دل کی جناب میں |
معلومات