| وہ زمانہ اور تھا جب کھودنی پڑتی تھی نہر |
| اب کہیں شیریں نہیں تو کس لئے فرہاد ہو |
| بھوک سے سہمے ہوئے مدقوق چہروں کی زباں |
| جس طرح کوٹھے پہ بوڑھی نائکہ ناشاد ہو |
| آسمانوں سے اتر کر سن بنی آدم کا حال |
| روک لینا جب کہیں تازہ ستم ایجاد ہو |
| قتل ہونے کے لئے بیٹے جواں کرتی ہے ماں |
| تاکہ قبرستان میں بستی کوئی آباد ہو |
| کس طرح محفوظ رہ سکتی ہیں وہ کلیاں جہاں |
| باغباں سوئے ہوئے ہوں گھات میں صیّاد ہو |
| خود کشی کرکے وصیت چھوڑ دی بچّوں کے نام |
| اب یتیموں کا یہاں اپنا نگر آباد ہو |
| کون سے اوصاف ہوں لیڈر میں اے جانِ غزل |
| مطلقاً جھوٹا ہو دھوکے باز ہو جلّاد ہو |
| بھولنا چاہوں تمہیں اکرم مگر ممکن نہیں |
| تُم مرے خوابوں کے پاکستان میں آباد ہو |
| ایک جیسے غم ہیں سب کے آؤ سارے ایک ہوں |
| ایک جیسی سسکیاں ہوں ایک سی فریاد ہو |
| اس طرح شیر و شکر ہیں کچّی بستی کے مکیں |
| ایسا لگتا ہے سبھی اک باپ کی اولاد ہوں |
| ظلم کو برباد ہونا چاہئے آخر امید |
| جیسے قرآں کی زبانی نوح کی فریاد ہو |
معلومات