ہیں فخرِ آدم روحِ جاں، عکسِ جمالِ کبریا
جو کائناتِ حسن ہیں یا روپ ہیں اس دہر کا
دونوں جہاں کی نبض ہے، مرہونِ فیضِ مصطفیٰ
ہر دان گنجِ یزداں سے ہے، واسطہ صلے علیٰ
ہے نور سے معمور دن، اور رات میں تارے قمر
جملہ چمن کے روپ میں بھی، جلوہ ہے سرکار کا
سارے جہاں کے بحر و بر، یہ رونقِ باغِ بہشت
فیضِ جلی سے تام ہیں، ہے فضلِ حق ان پر سدا
پاکیزہ ناتوں کو نبی سے مل گیا ظرفِ گراں
قرآں نبی کے خُلق کو ہے، سب سے اعلیٰ کہہ رہا
ہر اک جہاں کا ہر کراں، پیارے نبی کی زد میں ہے
ادراک جن کی اوج کے زینے نہیں ہے چھو سکا
کیسے بیاں ہوں رفعتیں، اس صاحبِ معراج کی
محبوب ہیں جو کبریا کے، سیدِ دونوں سریٰ
جان و جگر میں ہر رمق، نورِ ہدیٰ مختار سے
ہر راستہ ان سے فروزاں، جنتوں کو جو گیا
اوصاف کہنے دلربا کے، کبریا کا کام ہے
محمود کر رب سے دعا، مقبول ہو تیرا کہا

24