| یہ حقیقت ہے یہ سراب نہیں |
| رنگِ رخسار ہے گلاب نہیں |
| جس میں صورت تری نظر آۓ |
| اب میسر مجھے کتاب نہیں |
| گرمیٔ عشق اور رخِ زیبا |
| حال پھر کیوں مرا خراب نہیں |
| روگِ الفت کا کیا کہیں صاحب |
| اس سے بد تر کوئی عذاب نہیں |
| زندگی خود یہ فن سکھاتی ہے |
| اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں |
| آپ کی شان میں کہوں نغمے |
| مجھ سے امید یہ جناب نہیں |
| دل کہ اس عمر میں نہ بہکا گر |
| عہدِ طفلی ہے یہ شباب نہیں |
| کچھ تو ہنگامہ ہو کہ کہتے ہیں |
| آج بے خود نے پی شراب نہیں |
| شہرِ محبوب سے بھی ہو آئے |
| شاہؔ جی آپ کا جواب نہیں |
معلومات