دوسروں کے یہ سہارے نہیں اچھے لگتے
بے کسی کے بھی نظارے نہیں اچھے لگتے
موج سرکش کے یہ دھارے نہیں اچھے لگتے
"ہم کو دریا کے کنارے نہیں اچھے لگتے"
آب الفت سے بجھانی ہے یہ نفرت کی آگ
نفرتوں کے یہ شرارے نہیں اچھے لگتے
با ادب سادگی سے چاہنے والوں کو صنم
شوخ چنچل سے اشارے نہیں اچھے لگتے
انکساری کو برتتے ہیں شرافت والے
خود سری کے جو ہیں مارے نہیں اچھے لگتے
اہل سرمایہ کے سب کام نکل جاتے ہیں
ذی وجاہت کے اجارے نہیں اچھے لگتے
بے زباں کی نہ چلی ہے نہ چلیگی ناصؔر
اف یہ مسکین پہ آرے نہیں اچھے لگتے

0
11