لگی دل کی تو کب کا بجھ چکی ہے
مگر ہم ہیں کہ جلتے جا رہے ہیں
تمہاری زلف ہے زنجیرِ زنداں
سو دیوانے مچلتے جا رہے ہیں
اندھیرے ہوں گے چہرے کے افق پر
کہ سورج دل کے ڈھلتے جا رہے ہیں
ہمارے ہاتھ اب کچھ بھی نہیں ہے
لہذا ہاتھ ملتے جا رہے ہیں
تمہاری چاپ کی ہے چھاپ دل پر
اصولِ غم کچلتے جا رہے ہیں
بنے ہیں جانے کس مٹی سے یہ رند
جو پی پی کر سنبھلتے جا رہے ہیں
ضعیفی مرگ کی ہے شکلِ اول
مگر یہ پیڑ پھلتے جا رہے ہیں
ہمارے بعد تجھ تک کون پہنچے
سو ہم رستہ بدلتے جا رہے ہیں
زبیر احمد ثانی

0
8