وہ شخص میری خاک سے ابھرا ہوا نہ تھا
اس درجہ اپنے آپ میں پہنچا ہوا نہ تھا
اس دن کہ ہم نے چاند پہ کھنچی زمین تھی
سورج تمہارے چاک پہ ٹھہرا ہوا نہ تھا
سیارہ جس کی سمت خلاؤں کی آنکھ ہے
اس کشمکش کی ڈور سے لٹکا ہوا نہ تھا
جنبش تھی ابرِ زلفِ پریشانِ فصل کی
فرقت پہ تپ کا پارہ بھی چژھتا ہوا نہ تھا
ہم رہ گئے کہ چھوٹ گیا ہم سے کاروان
اک دورِ خوش گمان تھا چرچا ہوا نہ تھا
وہ دشتِ خواب جس پہ سرابوں کی جھاگ تھی
باب شعورِ چشم تھا لکھا ہوا نہ تھا
ہم آگئے ہیں دیکھ کے شؔیدا دیارِ نجد
اب تک تمہارے نام پہ صحرا ہوا نہ تھا

0
6