خواب اک مدتوں سے ہے پالا ہوا
اس کو پانے کا جزبہ ہے ابھرا ہوا
مسکراہٹ لبوں پر نہ دوڑے گی اب
"غم ہی غم ہے فضاؤں میں چھایا ہوا"
کیسی دلدوز یادیں وہ تڑپاتی ہیں
جاں گزا سانحہ سے ہے سہما ہوا
فرض گر باغباں کا نگہبانی ہے
آشیاں ہر طرف کیوں ہے بکھرا ہوا
عقل حیران ہے، دل پریشان ہے
دشمن دین پر ہی بھروسہ ہوا
دل پسیجا نہیں، شرم آتی نہیں
ہم کو ظلم و ستم کیوں گوارا ہوا
مست ہے دھن میں ناصؔر نہ ہے کچھ خبر
لوگ کہتے مگر تھے ہے سلجھا ہوا

0
54