صفت آزاد خاکی ہوں رہوں کیوں کر میں بندش میں
میں شاہؔی ہوں روایاتِ اسیری توڑ جاؤں گا
دلِ کوہِ ہمالہ کو بھی دہلادے جو ہیبت سے
بنا کر ذرۂ خاکی کو میں شہ زور جاؤں گا
مرے بپھرے ہوئے موجوں کی طغیانی ذرا دیکھو
کہ تند و تیز دریا کا بھی میں رخ موڑ جاؤں گا
نہیں میں موجِ حیراں جو کہیں دب کر ہی رہ جائے
وہ طوفاں ہوں سمندر میں مچا کر شور جاؤں گا
مجھے روکو گے کیسے گلستاں کو خاک کرنے سے
میں شعلہ ہوں بجھا بھی دو شرارہ چھوڑ جاؤں گا
اگر اس گلستاں میں آشیاں نہ ہو تو کیا غم ہے
بنا کر راہِ منزل پھر کسی بھی اور جاؤں گا

1
55
شکریہ محترم

0