اب نام لینے کی کی ہے جو جسارت ابھی۔
پھر جسم کو ملنے پر ہے سب حرارت ابھی۔
بے چینی دل شوخی شوقینی ہو قلب و نظر۔
ملنے لگی زندگی کو سب بشارت ابھی۔
تیرے کرم سے اے حسنِ آفریں نازنیں۔
یہ دل بنا دوستی کی پھر صدارت ابھی۔
اے جوشِ اب درد کی طغیانیوں کا نہ پوچھ۔
اشکوں ڈھلی ہے یہ ساری ہی عمارت ابھی۔
اس پاس رہ کے بھی دل پھر مطمئن جو ہوا۔
اب گزری ہے یہ شبِ شرکت طہارت ابھی۔
اپنا تو سب ہوش ہے تیرا بھی اب انتظار۔
یوں گزری فرصت دلہن بن کر ندارت ابھی۔
تم دور الفت سے کیوں کر ہوتے جاتے ہو یوں۔
اس آنکھ کو ملی کیفیت بصارت ابھی۔
تب دوست نے رسم الفت پوری لج رکھ لی ہے۔
اس بار ہا پڑھی تیری یہ عبارت ابھی۔

0
36