رائگاں جا سکے معصوم کی فریاد نہیں
حامی ہو جس کا خدا ہوتا وہ برباد نہیں
مقصد زیست کا اتمام ادھورا ہے کہاں
"اب کسی بات کا طالب دل ناشاد نہیں"
موت سے خوف نہیں لاگے، مگر ہے حسرت
اخروی زندگی کا لے لیا کچھ زاد نہیں
اپنی وقعت کو سر عام جو نیلام کیا
کاہلی کا لگا الزام بے بنیاد نہیں
عرصہ گزرا ہے پشیمانی کو سہتے ناصؔر
ہے نئی کوئی بلا اور یہ افتاد نہیں

0
36