ادھورے خوابوں کا رونا ہے غزل
بحور میں غم کو بونا ہے غزل
غموں کے صابن اور آبِ ہجر سے
جگر کے زخموں کا دھونا ہے غزل
سنے اِسے عاشق تو ملے سکوں
یوں مرضِ الفت کا ٹونا ہے غزل
سنا ہے ہم نے اکثر بڑوں سے یہ
کہ بسترِ غم پر سونا ہے غزل
کہوں میں کیا ساغر مان لیجیے
سکوں کا کوئی اک کونا ہے غزل

0
2
119
جناب مرے خیال میں اگر اس غزل کی بحر تھوڑی سی بدل دیں تو اور نغمگی آ جاۓ گی
جیسے
ادھورے خوابوں کا رونا غزل ہے
غموں کو بحر میں بونا غزل ہے

اور صابن جیسے غیر شاعرانہ لفظوں سے پرہیز کرنی چاہیۓ

0
بہت شکریہ جزاک اللہ ابھی یہ غزل نا مکمل ہے اور قابل اصلاح ہے جس کی درستگی کی جارہی ہے۔ وقت کی کمی کے باعث تھوڑی دیر لگ رہی ہے ۔میں آپ کی اس ذرہ نوازی کا بے حد مشکور ہوں ۔ اللہ آپ سے راضی ہو ۔

0