تیری گلی کی خاک سے نسبت قبول ہے |
تجھ سے ملی محبت و نفرت قبول ہے |
کب عاشقوں پہ تھا اثرِ طعنۂ جہاں |
روزِ ازل سے ان کو مذمت قبول ہے |
پل پل جلا رہی ہے جو خونِ جگر مرا |
اس نارِ عشق کی مجھے حدّت قبول ہے |
جس دم ہو میرے ساتھ مرا ہمسفر صنم |
کل زندگی کے بدلے وہ ساعت قبول ہے |
ذم مثلِ جانِ واحدہ اک دوجے میں رہیں |
کیا اے صنم تمھیں بھی یہ وحدت قبول ہے |
آئے وہ دن بھی جلد کہ دنیا کے سامنے |
عاجز کی تُو کہے تجھے نسبت قبول ہے |
معلومات