تیری گلی کی خاک سے نسبت قبول ہے
تجھ سے ملی محبت و نفرت قبول ہے
کب عاشقوں پہ تھا اثرِ طعنۂ جہاں
روزِ ازل سے ان کو مذمت قبول ہے
پل پل جلا رہی ہے جو خونِ جگر مرا
اس نارِ عشق کی مجھے حدّت قبول ہے
جس دم ہو میرے ساتھ مرا ہمسفر صنم
کل زندگی کے بدلے وہ ساعت قبول ہے
ذم مثلِ جانِ واحدہ اک دوجے میں رہیں
کیا اے صنم تمھیں بھی یہ وحدت قبول ہے
آئے وہ دن بھی جلد کہ دنیا کے سامنے
عاجز کی تُو کہے تجھے نسبت قبول ہے

0
12