| مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے |
| جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کئے ہوئے |
| کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو |
| عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہوئے |
| پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم |
| برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کئے ہوئے |
| پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفس |
| مدت ہوئی ہے سیرِ چراغاں کئے ہوئے |
| پھر پرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق |
| سامانِ صد ہزار نمک داں کئے ہوئے |
| پھر بھر رہا ہوں خامۂ مژگاں بہ خونِ دل |
| سازِ چمن طرازیٔ داماں کئے ہوئے |
| باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب |
| نظارہ و خیال کا ساماں کئے ہوئے |
| دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے |
| پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے |
| پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب |
| عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کئے ہوئے |
| دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال |
| صد گلستاں نگاہ کا ساماں کئے ہوئے |
| پھر چاہتا ہوں نامۂ دل دار کھولنا |
| جاں نذرِ دل فریبیٔ عنواں کئے ہوئے |
| مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس |
| زلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں کئے ہوئے |
| چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو |
| سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کئے ہوئے |
| اک نو بہارِ ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ |
| چہرہ فروغ مے سے گلستاں کئے ہوئے |
| پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں |
| سر زیر بارِ منتِ درباں کئے ہوئے |
| جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ رات دن |
| بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے |
| غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ، کہ پھر جوشِ اشک سے |
| بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کئے ہوئے |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات