چاہیے اچھوں کو ، جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
صحبتِ رنداں سے واجب ہے حَذر
جائے مے ، اپنے کو کھینچا چاہیے
چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل؟
بارے اب اس سے بھی سمجھا چاہیے!
چاک مت کر جیب ، بے ایامِ گل
کُچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے
دوستی کا پردہ ہے بے گانگی
منہ چھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے
دشمنی نے میری ، کھویا غیر کو
کس قدر دشمن ہے ، دیکھا چاہیے
اپنی، رسوائی میں کیا چلتی ہے سعی
یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے
غافل ، اِن مہ طلعتوں کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا چاہیے
چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسدؔ
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے
بحر
رمل مسدس محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن

0
1718

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں