| گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو |
| کہے سے کچھ نہ ہوا، پھر کہو تو کیوں کر ہو |
| ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال |
| کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو کیوں کر ہو |
| ادب ہے اور یہی کشمکش، تو کیا کیجے |
| حیا ہے اور یہی گومگو تو کیوں کر ہو |
| تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا |
| بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیوں کر ہو |
| الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ |
| جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیوں کر ہو |
| جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا |
| وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیوں کر ہو |
| ہمیں پھر ان سے امید، اور انہیں ہماری قدر |
| ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو کیوں کر ہو |
| غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلّی کا |
| نہ مانے دیدۂ دیدار جو، تو کیوں کر ہو |
| بتاؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار |
| یہ نیش ہو رگِ جاں میں فِرو تو کیوں کر ہو |
| مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بہ قولِ حضور |
| فراقِ یار میں تسکین ہو تو کیوں کر ہو |
بحر
|
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
||
|
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات