وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا
جو نفس تھا خارِ گلو بنا، جو اٹھے تو ہاتھ لہو ہوئے
وہ نشاطِ آہ سحر گئی وہ وقارِ دستِ دعا گیا
نہ وہ رنگ فصلِ بہار کا، نہ روش وہ ابرِ بہار کی
جس ادا سے یار تھے آشنا وہ مزاجِ بادِ صبا گیا
جو طلب پہ عہدِ وفا کیا، تو وہ آبروئے وفا گئی
سرِ عام جب ہوئے مدّعی تو ثوابِ صدق و صفا گیا
ابھی بادباں کو تہہ رکھو ابھی مضطرب ہے رخِ ہوا
کسی راستے میں ہے منتظر وہ سکوں جو آکے چلا گیا
بحر
کامل مثمن سالم
متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن

0
1776

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں