| وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا |
| وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا |
| جو نفس تھا خارِ گلو بنا، جو اٹھے تو ہاتھ لہو ہوئے |
| وہ نشاطِ آہ سحر گئی وہ وقارِ دستِ دعا گیا |
| نہ وہ رنگ فصلِ بہار کا، نہ روش وہ ابرِ بہار کی |
| جس ادا سے یار تھے آشنا وہ مزاجِ بادِ صبا گیا |
| جو طلب پہ عہدِ وفا کیا، تو وہ آبروئے وفا گئی |
| سرِ عام جب ہوئے مدّعی تو ثوابِ صدق و صفا گیا |
| ابھی بادباں کو تہہ رکھو ابھی مضطرب ہے رخِ ہوا |
| کسی راستے میں ہے منتظر وہ سکوں جو آکے چلا گیا |
بحر
|
کامل مثمن سالم
متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات