| آ، کہ مری جان کو قرار نہیں ہے |
| طاقتِ بیدادِ انتظار نہیں ہے |
| دیتے ہیں جنت حیاتِ دہر کے بدلے |
| نشہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے |
| گِریہ نکالے ہے تیری بزم سے مجھ کو |
| ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے |
| ہم سے عبث ہے گمانِ رنجشِ خاطر |
| خاک میں عشاق کی غبار نہیں ہے |
| دل سے اٹھا لطفِ جلوہ ہائے معانی |
| غیرِ گل آئینۂ بہار نہیں ہے |
| قتل کا میرے کیا ہے عہد تو بارے |
| وائے اگر عہد استوار نہیں ہے |
| تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے غالبؔ |
| تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے |
بحر
|
منسرح مثمن مطوی منحور
مفتَعِلن فاعلات مفتَعِلن فِع |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات