| حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں |
| مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں |
| چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں |
| ہر اک سے پُوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں |
| جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار |
| اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو مَیں |
| ہے کیا، جو کس* کے باندھیے میری بلا ڈرے |
| کیا جانتا نہیں ہُوں تمھاری کمر کو مَیں |
| لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ 'یہ بے ننگ و نام ہے' |
| یہ جانتا اگر، تو لُٹاتا نہ گھر کو مَیں |
| چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رَو کے ساتھ |
| پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہبر کو مَیں |
| خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار |
| کیا پُوجتا ہوں اس بُتِ بیداد گر کو مَیں |
| پھر بے خودی میں بھول گیا راہِ کوئے یار |
| جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو مَیں |
| اپنے پہ کر رہا ہُوں قیاس اہلِ دہر کا |
| سمجھا ہوں دل پذیر متاعِ ہُنر کو میں |
| غالبؔ خدا کرے کہ سوارِ سمندِ ناز |
| دیکھوں علی بہادرِ عالی گُہر کو میں |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات