| قفس میں ہوں گر اچّھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو | 
| مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجانِ گلشن کو | 
| نہیں گر ہمدمی آساں، نہ ہو، یہ رشک کیا کم ہے | 
| نہ دی ہوتی خدایا آرزوئے دوست، دشمن کو | 
| نہ نکلا آنکھ سے تیری اک آنسو اس جراحت پر | 
| کیا سینے میں جس نے خوں چکاں مژگانِ سوزن کو | 
| خدا شرمائے ہاتھوں کو کہ رکھتے ہیں کشاکش میں | 
| کبھی میرے گریباں کو کبھی جاناں کے دامن کو | 
| ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں | 
| نہیں دیکھا شناور جوئے خوں میں تیرے توسن کو | 
| ہوا چرچا جو میرے پاؤں کی زنجیر بننے کا | 
| کیا بیتاب کاں میں جنبشِ جوہر نے آہن کو | 
| خوشی کیا، کھیت پر میرے، اگر سو بار ابر آوے | 
| سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمن کو | 
| وفاداری بہ شرطِ استواری اصلِ ایماں ہے | 
| مَرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو | 
| شہادت تھی مری قسمت میں جو دی تھی یہ خو مجھ کو | 
| جہاں تلوار کو دیکھا، جھکا دیتا تھا گردن کو | 
| نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا | 
| رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو | 
| سخن کیا کہہ نہیں سکتے کہ جویا ہوں جواہر کے | 
| جگر کیا ہم نہیں رکھتے کہ کھودیں جا کے معدن کو | 
| مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غالبؔ | 
| فریدون و جم و کیخسرو و داراب و بہمن کو | 
                            بحر
                        
                        | ہزج مثمن سالم مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن | 
اشعار کی تقطیع
 
                        
                        تقطیع دکھائیں
                    
                     
                         
    
معلومات