آ ہم نشیں نمازِ صبوحی ادا کریں
خوشبوئے عود میں درِ میخانہ وا کریں
ہاں اٹھ کہ مُہرِ شیشۂ گُل رنگ توڑ کر
انسانیت کو دامِ خرد سے رہا کریں
باقی جو بچ رہا ہے کچھ ایمان خیر سے
اُس کو بھی آج پائے صنم پر فدا کریں
پودے مچل رہے ہیں گھٹائیں ہیں پرخروش
آ ہم بھی آج حقِّ جوانی ادا کریں
بہکیں قدم قدم پہ چلیں جھوم جھوم کر
اتنا تو پاسِ خاطرِ موجِ صبا کریں
ساغر میں غرق کر کے لباسِ فریب کو
پیرانِ خرقہ پوش کے حق میں دعا کریں
ہر شے ہے پائے لیلیٔ مستی پہ سجدہ ریز
اور ہم نمازِ جام و صراحی قضا کریں
برسات کی گھٹاؤں سے برسیں گلابیاں
اور ہم وضو سے شست و شوئے دست و پا کریں
گلشن کا ذرہ ذرہ پیے بے دھڑک شراب
اور ہم خیالِ پرسشِ روزِ جزا کریں
بہکے ہوا رواں ہو فضا مست ہو گھٹا
اور ہم خرد کو راہبر و رہنما کریں
گردوں پیالہ کَش ہے تو گیتی قرابہ نوش
ہم اور اِس بہار میں خوفِ خدا کریں
پی پی کے جھوم جھوم کے گا گا کے مثلِ جوش
آ دھوم سے عبادتِ آب و ہوا کریں
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن

0
248

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں