| لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور |
| تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور |
| مٹ جائے گا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا |
| ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور |
| آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ 'جاؤں؟' |
| مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور |
| جاتے ہوئے کہتے ہو 'قیامت کو ملیں گے' |
| کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور |
| ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف |
| کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور |
| تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے |
| پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور |
| تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے |
| کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور |
| مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی |
| بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور |
| گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش |
| کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور |
| ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالبؔ |
| قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور |
بحر
|
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات